کوہ چلتن
چلتن کا شمار بلوچستان کے سب سے اونچی چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ ہزار گنجی اور چلتن کے پہاڑی علاقے ایک دوسرے کے ساتھ واقع ہیں۔ کوہ چلتن کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک پاکستان کا ایک خوبصورت نیشنل پارک ہے۔
چلتن پہاڑ کے نام کے بارے میں کئی من گھڑت کہانیاں مشہور ہیں، مگر جو بات تاریخ سے ثابت ہے وہ یہ کہ خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے اولاد میں سے ان کے تین نواسوں نے چھ سو برس قبل چشت ہرات افغانستان سے بلوچستان کی طرف ہجرت کی، جن میں سے ایک بھائی خواجہ نظام الدین علی نے پشین منزکی میں سکونت اختیار کی، دوسرے بھائی خواجہ ابراہیم یکپاسی نے مستونگ بلوچستان کا رخ کیا اور وہاں سکونت اختیار کی اور تیسرے بھائی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا نے کوئٹہ میں سکونت اختیار کی۔ خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کو افغانستان کے بادشاہوں کی طرف سے وادی کوئٹہ کا مغربی حصہ دیا گیا تھا۔ خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے فرزند خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے مقام پر آباد ہوئے۔ کرانی اسی جاگیر کے اندر واقع ہے۔ کوہ چلتن کو چلتن کا نام خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے دور میں ملا۔ اس کے علاوہ میان غنڈی اور دشت کو بھی اسی دور یہ نام ملے کیونکہ یہ بھی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے جاگیر کا حصّہ تھے۔
چشت ہرات افغانستان میں بھی چلتن کے نام سے ایک پہاڑ مشہور ہے۔ چونکہ یہ اولیاء چشت شریف سے ہجرت کر کے آئے تھے اور چشت شریف میں بھی اسی نام سے بالکل اسی مشابہت کی ایک چوٹی موجود ہے، اس لیے سادات چشتیہ نے اپنے سابقہ وطن اور اجداد کی محبت میں اس پہاڑ کو بھی چلتن کا نام دیا۔ علاوہ ازیں چشت اور کرانی کے موسم بھی ایک جیسے ہیں، اس لیے دونوں ہم نام پہاڑوں کے درخت اور پودے بھی ایک جیسے ہیں۔