یوم العالم
یوم العالم بائبل کے مطابق سالوں کا وہ شمار ہے جو بائبل کی پہلی کتاب یعنی کتاب پیدائش میں موجود دنیا کے پہلے بزرگوں کی مدت حیات سے استخراج کیا گیا ہے ۔
یوم العالم کا مختصر جائزہ
[ترمیم]عبرانی تقویم کے مطابق تخلیق کائنات کو یوم العالم کا پہلا سال شمار کیا جاتا ہے۔ اب تک جس قدر سال تخلیق کائنات سے گذر چکے ہیں، انھیں یوم العالم کے سال شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل لاطینی زبان کے لفظ Anno Mundi سے کیا گیا ہے۔ Anno Mundi دو لاطینی الفاظ کا مجموعہ ہے یعنی Anno اور Mundi کا۔ لاطینی میں سال کو Anno سال کو اور Mundi دنیا کو کہتے ہیں۔ اِسی لیے اِن دونوں الفاظ کا مجموعہ Anno Mundi ہوا جس کے معنی ہیں: " دنیا کے سال میں" اور عبرانی تورات کی رُو سے اِس کے معنی ہوں گے : " تخلیق کائنات کے بعد(بعد از تخلیقِ دنیا)"۔
تورات کے عبرانی نسخہ کے مطابق یوم العالم کا مبداء صفر بروز پیر 7 اکتوبر 3761 قبل مسیح کو پڑتا ہے جس سے عبرانی تقویم کا آغاز ہوا ہے۔ مگر یہ بات کسی حد تک درست بھی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ کائناتِ ارضی کئی لاکھ سال پیشتر وجود میں آئی اور اب تک دریافت ہونے والی انسانی تہذیبوں کے آثار قریباً دس لاکھ سال قبل مسیح کے قریب قریب ملے ہیں جس سے عبرانی تقویم میں غلطی معلوم ہوتی ہے اور یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ عبرانی تورات میں مذکورہ بزرگوں کی یا تو مدت حیات میں کہیں فرق آیا ہے یا پھر اِن بزرگوں کے تعین میں کئی نسلیں چھوٹ گئی ہیں کیونکہ محض حضرت آدم علیہ السلام سے سام بن نوح علیہ السلام تک گیارہ پشتوں میں صرف 1558 سال بنتے ہیں جو صریحاً غلطی معلوم ہوتی ہے ۔
قبل از مسیح عبرانی تقویم میں سالوں کے خلل و گمشدگی کا اِمکان ثبوت کے ساتھ واضح ہے کیونکہ تالمود کے بابلی نسخہ کے مطابق ہیکل سلیمانی کا انہدام یوم العالم کے 3338 ویں سال یعنی 423 قبل مسیح میں ہوا جبکہ یہودی مورخ فلا ویس یو سیفس بھی اِسے یوم العالم کے 3338 ویں سال کا واقعہ قرار دیتا ہے جو عبرانی تقویم کے عین مطابق 423 قبل مسیح ہونا چاہئیے مگر یہ درست قرار نہیں پاتا حالانکہ موجودہ محققین و مورخین اِسے 587 قبل مسیح یعنی عبرانی تقویم کے 3174 ویں سالِ یوم العالم کا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ اِن دونوں روایات میں تقریباً 164 سال کا فرق پڑتا ہے۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تورات کی کتب خمسہ میں سالوں کا شمار کہیں نا کہیں غلطی کا شکار ہوا ہے ۔
اِس نسب میں پہلی غلطی اِس طرح واقع ہوئی ہے کہ حضرت آدم کی وفات یوم العالم کے 930 ویں سال میں ہوئی جبکہ حضرت آدم کی آئندہ 9 پشتوں کے بزرگ پیدا ہو چکے تھے یعنی حنوک بن یارد تک کے بزرگ۔ حضرت آدم کی طوالت عمری تو مشہور ہے مگر غلطی کا اِمکان یہاں پر ثابت ہوتا ہے کہ جب لامخ بن متوشلح یوم العالم کے 874 ویں سال فوت ہوئے اور حضرت آدم 874 سال کی عمر میں ابھی بقیدِ حیات ہوں۔ یہ بات بھی باعث حیران کن ہے کہ حضرت آدم کی وفات یوم العالم کے 930 ویں سال ہوئی اور بعد ازاں حنوک بن یارد کی وفات 987 ویں یوم العالم میں ہوتی ہے اور ابھی نسب کے درمیان میں 6 بزرگ بقید حیات بھی ہیں، سو یہی غلطی نسب نامہ میں ضعف کو تقویت دیتی ہے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ یا تو درمیان سے بزرگوں کی ترتیب میں کچھ بزرگ موجود نہیں ہیں اور یا پھر سالوں کے غلط اندراج نے سب معاملہ بگاڑ دیا ہے۔
تورات کے عبرانی نسخہ کی کتاب پیدائش کے مطابق تخلیق آدم علیہ السلام سے طوفان نوح تک صرف 1656 سال شمار میں آتے ہیں، حالانکہ یہ بات قابل اعتبار نہیں کیونکہ یہ ہونہیں سکتا کہ طوفان نوح جو یوم العالم کے 1656 ویں سال میں وقوع پزیر ہوا، اُس سال میں حضرت نوح کے دادا متوشلح زندہ ہوں اور حضرت نوح کے والد لامخ یوم العالم کے 1651 ویں سال میں 777 سال کی عمر میں فوت ہو چکے تھے۔ یہاں اِس بات کا قوی اِمکان ہے کہ یا تو اِن بزرگوں کی مدت حیات میں تعین درست نہیں یا پھر درمیان میں سالوں کا تفاوت ہے۔
تورات کے بزرگوں کے نسب میں اگر ناموں کی ترتیب درست ہے تو پھر یقیناً یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ کہیں نا کہیں تو تحریفی سبب اِن اغلاط کا باعث بنا ہے کیونکہ یہ ہرگز ممکن نہیں ہو سکتا کہ ایک بزرگ کی مدت حیات میں اُس کی نسل کے آئندہ 8 یا 9 بزرگ بقید حیات ہوں۔ اب جیسے کہ یہ حقیقت درست نہیں ہو سکتی کہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت کے وقت بقیدِ حیات ہوں۔ اگر جدول زیریں کو غور سے ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یوم العالم کے 1948 ویں سال میں پیدا ہوئے۔ ساتھ ساتھ عبرانی تورات سے یہ حقیقت بھی باعثِ حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اُس زمانہ میں بقیدِ حیات تھے اور اُن کے فرزند سام بن نوح بھی زندہ تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت کے 58 سال بعد یوم العالم کے 2006 ویں سال میں فوت ہوئے۔ عبرانی تقویم کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت 1813 قبل مسیح میں ہوئی تو پھر حضرت نوح علیہ السلام کی وفات 1755 قبل مسیح میں پڑتی ہے۔ یہ صریحاً غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم تو حضرت نوح کی دسویں پشت میں آتے ہیں۔ اور یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ دس پشتوں میں موجود کثیر بزرگ بقیدِ حیات بھی ہوں اور بڑھ کر کہ خود حضرت نوح علیہ السلام خود بھی حیات ہوں۔
اِس طرح تو طوفان نوح اور ولادت حضرت ابراہیم علیہ السلام میں صرف 292 سال کا فرق معلوم ہوتا ہے جبکہ طوفان نوح کے بعد 8 بزرگوں کی پیدائش ہوتی ہے اور اگر اوسطاً سب بزرگوں کے بیٹوں کی پیدائش کے وقت عمر 30 سے 40 سال بھی فرض کر لی جائے تو 240 سے 280 سال ممکن ہوتے ہیں مگر تورات کے بزرگوں کی طوالت عمری کے سبب یہ مفروضہ بھی غلط قرار پاتا ہے کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد 9 مزید بزرگ آئندہ نسب نامہ میں پائے جاتے ہیں اور سب کی طوالت عمری خود تورات کی کتاب پیدائش سے ثابت بھی ہے۔ اِس لیے یہ 292 سال والا تفاوت غلط ثابت ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا ابہام کو دور کرنے کے لیے ایک تاویل جو سمجھ میں آتی ہے جس کی دلیل مذہبی کتب سے ملتی ہے کہ حضرت آدم علیہ سلام کے دور میں صبح شام دو جوڑے بچوں کے پیدا ہوتے تھے اور یہ بھی بیان ملتے ہیں کہ صبح ہونے والے لڑکے کی شادی شام پیدا ہونے والی لڑکی سے اور اسی طرح شام پیدا ہونے والے لڑکے کی شادی صبح پیدا ہونے والی لڑکی سے ہو جاتی تھی اس سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے اس زمانے میں یا تو دن رات موجودہ دور سے طویل تھے یا شاید بچپن اور لڑکپن گھنٹوں میں ہی طے ہو جاتا تھا چونکہ دنیا کی آبادی مقصود تھی اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی نسلیں زندہ تھیں پھر اگر مذہبی دلیل دی جائے تو مذہبی لحاظ سے حضرت نوح علیہ سلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے اور پھر حضرت ابراھیم تک کے دور تک کوئی بزرگ پیغمبر کا زکر نہیں تو چونکہ حضرت ابراھیم علیہ سلام کی پیدائیش ہو چکی تھی لہذا کسی اور پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیوں کہ مذہب کے مطابق خدا نے کسی بھی دور کو بغیر پیغمبر نہیں رہنے دیا
مختلف تنقیدی جائزے
[ترمیم]یوم العالم یعنی تخلیق کائنات سے متعلق جس قدر مفروضے اُس کے قدیم ہونے کے ہوں، وہ 5598 قبل مسیح سے قبل تقویمی اعتبار سے نہیں پائے جاتے جبکہ زمین کے ارضیاتی مطالعے و جائزہ سے زمین اور چاند کی عمر 4.543 ارب سال ہے۔[1][2][3][4] تورات کے عبرانی نسخہ کے مطابق صرف تخلیق کائنات کا سال 3761 قبل مسیح قرار پاتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے درست ثابت نہیں ہوتا۔
شمار | نام | سال پیدائش (یوم العالم سے ) | سالوں کا وہ شمار جس میں بزرگ اپنی اولاد کے بعد زندہ رہے۔ | سال وفات (یوم العالم سے ) | مدت حیات |
---|---|---|---|---|---|
1 | حضرت آدم علیہ السلام |
0 [5] | 800 سال[6] | 930 [7] | 930 سال [7] |
2 | حضرت شیث علیہ السلام |
130 [8] | 807 سال [9] | 1042 [9] | 912 سال [10] |
3 | انوس بن شیث علیہ السلام |
235 [11] | 815 سال [12] | 1140 [13] | 905 سال [13] |
4 | قینان بن انوس |
325 [12] | 840 سال [14] | 1235 [15] | 910 سال [15] |
5 | مہلل ایل بن قینان |
395 [16] | 840 سال [14] | 1235 [15] | 895 سال [15] |
6 | یارد بن مہلل ایل |
460 [17] | 800 سال [18] | 1422 [19] | 962 سال [20] |
7 | حنوک بن یارد |
622 [21] | 300 سال [22] | 987 [23] | 365 سال [24] |
8 | متوشلح بن حنوک |
687 [25] | 782 سال [26] | 1656 [27] | 969 سال [27] |
9 | لامخ بن متوشلح |
874 [28] | 595 سال [29] | 1651 [30] | 777 سال [30] |
10 | حضرت نوح بن لامخ |
1056 [31] | طوفان نوح کے 350 سال بعد تک اور سام کی پیدائش کے 450 سال بعد تک زندہ رہے۔ [32] | 2006 [33] | 950 سال [33] |
11 | سام بن حضرت نوح علیہ السلام |
سال پیدائش: 1558 یوم العالم۔ کتاب پیدائش باب 11 آیت 10 کے مطابق طوفان نوح کے دو سال بعد سام بن نوح کی عمر 100 سال تھی۔ حالانکہ یہ درست نہیں کیونکہ جب سام پیدا ہوئے تو حضرت نوح کی عمر 500 سال تھی اور اُن کی عمر کے 600 ویں سال میں طوفان نوح برپا ہوا تو طوفان نوح کے 2 سال بعد سام کی عمر 102 سال ہونی چاہئیے مگر تورات اُسے 100 سال ہی بتلاتی ہے۔ | ارفکسد کی ولادت کے بعد سام 500 سال زندہ رہے۔[34] | سال وفات : 2156 یوم العالم۔ طوفان نوح کے بعد 502 سال زندہ رہے مگر تورات اِسے صرف 500 سال بتلاتی ہے۔[34] | مدت حیات: 600 سال۔ سام بن نوح کی عمر 602 سال ہونی چاہئیے مگر تورات اِسے محض 600 سال بتلاتی ہے۔ |
12 | ارفکسد بن سام |
1658 [35] | 403 سال [36] | 2096 [36] | 438 سال [36] |
13 | سلح بن ارفکسد |
1693 [37] | 403 سال [38] | 2126 [38] | 433 سال [38] |
14 | عبر بن سلح |
1723 [39] | 403 سال [40] | 2187 [40] | 464 سال [40] |
15 | فلج بن عبر |
1757 | 209 سال [41] | 1996 [42] | 239 سال [41] |
16 | رعُو بن فلج |
1787 | 2026 | 239 سال [43] | |
17 | سروج بن رعُو |
1819 | 2049 | 230 سال [44] | |
18 | نحور بن سروج |
1849 [45] | 1997 | 148 سال | |
19 | تارح بن نحور |
1878 | 2083 | 205 سال | |
20 | حضرت ابراہیم بن تارح |
1948 [46] | 2123 | 175 سال |
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Age of the Earth". U.S. Geological Survey. 1997. Archived from the original on 23 December 2005.
- ↑ Dalrymple, G. Brent (2001). "The age of the Earth in the twentieth century: a problem (mostly) solved". Special Publications, Geological Society of London 190 (1): 205–221
- ↑ Manhesa, Gérard; Allègre, Claude J.; Dupréa, Bernard & Hamelin, Bruno (1980). "Lead isotope study of basic-ultrabasic layered complexes: Speculations about the age of the earth and primitive mantle characteristics". Earth and Planetary Science Letters 47 (3): 370–382.
- ↑ Braterman, Paul S. (2013). "How Science Figured Out the Age of Earth". Scientific American.
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 1 آیت 27۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 4۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 5۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 3۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 7۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 8۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 9۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 10۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 11۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 13۔
- ^ ا ب پ ت بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 14۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 12۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 15۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 19۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 17۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 20۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 18۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 22۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 24۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 23۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 21۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 26۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 27۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 25۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 30۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 31۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 5 آیت 28۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 9 آیت 28۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 9 آیت 29۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 11۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 10۔
- ^ ا ب پ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 13۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 12۔
- ^ ا ب پ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 15۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 16۔
- ^ ا ب پ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 17۔
- ^ ا ب بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 19۔
- ↑ دیکھو حوالہ مذکورہ بالا 59 اور 60۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11، آیت 20۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11، آیت 23۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11، آیت 22۔
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب 11 آیت 26۔